تاریک راستوں کے مسافر ۔ شاھداقبال حاجی زائی

213

تاریک راستوں کے مسافر ۔
شاھداقبال حاجی زائی

غیر قانونی طریقوں سے دیار غیر جانے والے ایک نوجوان کی کہانی ۔۔

میرا نام دلاورخان ہے میرا تعلق تحصیل شبقدر ضلع چارسدہ کے ایک گاوں سے ہے
وہ گرمیوں کی ایک اداس صبح تھی،جب میں ایک ایجنٹ کے زریعے یار دوستوں سے ادھار لیکر روٹی رزق کی تلاش میں نکل رہا تھا،میری ماں اس سفر کیلئے راضی نیہں تھی میرا باپ بھی اس کے خلاف تھا میری اکلوتی بہن رضیہ بھی اس سے خوش نیہں تھی،لیکن ہمارے گھر غربت اور افلاس نے پنجے گاڑہ رکھے تھے،ہم سفید پوش لوگ تھے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا بھی محال تھا،میں دھبے پاوں کمرے میں رکھے صندوق کے طرف بڑھا اور کمال ہوشیاری سے تالہ توڑ دیا،سیاہ کپڑے میں لہٹے ہوئے چند مڑے تھڑے نوٹ جو بابا نے کفن دفن کیلئے بچا رکھے تھے،اٹھا کر جیب میں ڈالے اور خاموشی سے گھر سے نکل آیا،پوپھٹنے سے پہلے پہلے میں بس اڈہ پہنچا اور بس میں بیٹھ گیا۔۔۔ شہر کی زندگی بھی عجیب تھی،ہر طرف چہل پہل تھی سب خوشحال تھے شاید شہر کا مزاج یہی تھا،ڈینز ٹریڈ سنٹر سے ایجنٹ نے ہم چار بندوں کو کوئٹہ جانے والی بس میں بٹھایا اور ایک موبائل نمبر دیکر تاکید کی،کہ کوئٹہ پہنچ کر اس نمبر پہ کال کرلینا ہمارا بندہ آپ کو لینے آجائےگا۔۔۔ ایک طویل اور تھکان زدہ سفر کے بعد ہم کوئٹک پہنچے تو ہمیں فون کرنے کی ضرورت پیش نیہں آئی، ایک کالا سیاہ کمزور بدن شخص ہمیں لینے پہلے سے موجود تھا،وہ ہمیں لیکر ایک سرائے پہنچا جہاں پہلے سے ہم جیسے غربت بیروزگاری سے تنگ،دو پنجابی ایک افغانی موجود تھے،کھانے کے نام پہ الو اور شربہ پیش کیا گیا شاید یہ میری زندگی کا لذیذ ترین کھانا تھا کیونکہ بہت سارے گھنٹوں بھوکا رہنے اور مسلسل سفر کے بعد یہ مجھے من سلوی سے کم نیہں لگا،بلوچستان کے علاقہ چاغی کے ریگستانوں اور ایرانی بارڈر کا سفر بذات خود ایک دلخراش کہانی ہے یہ صحرائی سفر پیدل بھی ہوتا ہے اور درمیان میں گاڑیوں پہ بھی ہوتا ہے جسے مقامی زبان میں ڈنگی بولتے ھیں ڈنگی کا مطلب ہے جانوروں والی گاڑی۔۔۔
اور پھر ایران اور پاکستان کی سرحد تک پہنچا جاتا ہے،اس سفر میں بھوک پیاس امید اور ناامیدی کیساتھ ساتھ موت زندگی کیساتھ ہر لمحہ کھیلتی ہے
مجھے بار بار اپنی ماں ل،باپ اور بہن رضیہ کا خیال آتا تھا نجانے جب وہ اس صبح اٹھے ہونگے تو ان پہ کیا بیتی ہوگی،ایران اور پاکستان کی یہ سرحد لق و دق صحرا میں لوہے کی جال کانام ہے جسے ہم نے جان ہتھیلی پہ رکھ کر پار کیا تھا،ایجنٹ نے کہا تھا کسی بھی لمحے بارڈر سیکورٹی کی گولی تمہاری کمر میں پیوست ہوسکتی ہے ایجنٹ کہہ رہا تھا موت کا یہ تماشا بارڈر پہ روز ہوتا ہے ہر دن مجھ جیسے رضیہ کے بھائی غیر قانونی بارڈر پار کرتے ہیں تو موت ان کے سامنے اپنا خونی رقص پیش کرتی ہے
پھر ایران سے ترکی کے بارڈر کا سفر شروع ہوتا ہے سنگلاخ پہاڑوں اور تپتی صحرا میں تیس گھنٹے پیدل یہ سفر کسی کوہ نوردی سے کم نیہں،ہمارا قافلہ جو چند افراد پر مشتمل تھا،جن میں اکٹر کے ھاتوں پہ اور پیروں پہ چھالے پڑے ہوئے تھے اپنی غیر یقینی منزل کیطرف رواں دواں تھا،مجھے وہ منظر بھی نیہں بھولتا جب میں نے ان پہاڑی راستوں میں انسانی ڈھانچے دیکھے تھے بھوک غربت اورلاچارگی انسان کو صحرا تک کھینچ لاتی ہے اور پھر اسے کھلے اسماں تلے مار دیتی ہے نہ کوئی جنازہ ہوتا ہے نہ کفن اور نہ قبر نصیب ہوتی ہے ترکی کے بارڈر تک پہنچنے کیلئے ایک پہاڑی عبور کرنی پڑتی ھے جسے مقامی زبان میں ماکو پہاڑی بولتے ہیں،ماکوکو عبور کرنا بھی مزاق نیہں ہے جا بجارینجرز اور لیوی کے دستے پھرتے ہیں،جن کو گرفتاری سے زیادہ مارنے میں دلچسپی ہوتی ہے،صحرا میں پڑے یہ ڈھانچے انہی کے کارنامے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ ابھی ہم نے ماکو پہاڑی ادھی بھی عبور نیہں کی تھی کہ اچانک گولیوں کی تڑتڑاھٹ سے پوری گھاٹی لرز اٹھی میرے دایئں طرف والا پنجاب سے تعلق رکھنے والے کی ٹانگ میں گولی لگی تھی،ہم سب دم سادھ کر زمین پر لیٹے تھے اور پھر ہم نے بھاری بوٹوں کی اواز سنی یہ ایرانی بارڈر سیکورٹی فورس کے لوگ تھے ہم گرفتار ہوچکے تھے خواب چکنا چور ہوگئے،ہمیں ایک فوجی نما گاڑی میں بھیڑ بکریوں کی طرح لاد کر جیل لایا گیا جیل کی اپنی ایک کہانی ہے لیکن اللہ جانے وہ ایجنٹ کہاں غائب ہوگیا تھا کیونکہ ہم نے پھر اس کی شکل نیہں دیکھی اور پھر کئی دنوں کی ضروری کاروائی کے بعد ہمیں پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا۔۔
اپنے گھر کی سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھائی جائے تو وہ ترکی میں کمائی جانے والی لیرا سے خریدے مرغ مسلم سے بہتر ہے،یہ سب دیوانے کے خواب ھیں اپ ترکی پہنچ بھی جایئں تو یہی ایجنٹ جب قانونی موشگافیوں میں جب خود پھنستے ہیں تو یہ اپکو قیدی بنا لیتے ہیں سو میں سے صرف پانچ افراد یہ غیر قانونی ریس جیت جاتے ہیں ستر گرفتار ہوتے ہیں اور پچیس مار دئیے جاتے ہیں،دیار غیر کا یہ غیر قانونی سفر اخر میں پچھتاوے پہ ہی ختم ہوتا ہے۔

فیس بک پر تبصرے

Loading...